مسئله فلسطين اور ہماری ذمہ داریاں



خطاب : حضرت مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم

بمقام: جامع مسجد الخلیل، معہد الخلیل الاسلامی بہادر آباد کراچی


 خطبہ مسنونہ کے بعد


معہد الخلیل کی انتظامیہ کے لیے کلمات تشکر کہنے کے بعد مندرجہ ذیل گفتگو فرمائ


تین نکات


میں اپنی گفتگو تین دائروں میں کروں گا

نمبر (ا) مسئلہ فلسطین کا تاریخی پس منظر کیا ہے ؟

نمبر (۲) میدان میں عملی فریق اس وقت کون کون سے ہیں؟

نمبر (۳) ۷ اکتوبر اور اس کے بعد کی صورتحال کا تجزیہ ۔


نمبر (۱) تاریخی پس منظر


حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل کے علاقے میں مبعوث ہوئے ، قوم نے قبول نہ کیا، وہاں سے ہجرت کی فلسطین کی طرف مع حضرت سارہ اور بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے۔


ابراہیم علیہ السلام وہاں آباد ہوئے ، پھر بیٹے حضرت اسماعیل مکہ مکرمہ میں آباد ہوئے ، پھر حضرت اسحاق وہیں پھر ان کے بیٹے حضرت یعقوب وہیں آباد ہوئے ، پھر لوط علیہ السلام کو اردن بھیج دیا۔


بحیرہ مردار (Dead Sea) کا علاقہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا ہے۔ وہ قوم تو ہلاک ہو گئی۔ 


ا۔ حضرت یعقوب تا حضرت عیسیٰ کا دور 


------------------------------------------------------------------

All In One

بے شمار دینی کتب ، درسی کتب ،شروحات، ماہنامہ ، رسائل، نعتیں، ویڈیوز، اسلامی تصاویر، یومیہ آیت مع ترجمہ، حدیث مع ترجمہ، محقق با حوالہ مسائل، اوقات نماز وغیرہ سب کچھ بلکل مفت حاصل کرنے کے لئے ڈونلوڈ کیجیے 

Download IslamicTube App 

ویبسائٹ لنک      

islamictube.in

---------------------------------------------------------------------


البتہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا سلسلہ آگے چلا - اور یہ انبیاء کا خاندان رہا، یہی آج تک ان یہودیوں کے دماغ پر چڑھا ہوا ہے کہ ہم افضل ہیں سب سے 

اني فضلتكم على العالمين

تقریباً تین ہزار پیغمبر آئے حضرت عیسی علیہ السلام تک۔ یہ اس دور کے اہل حق کا دور ہے۔


٢ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کا دور 


حضرت عیسی علیہ السلام آئے، جنہوں نے مان لیا وہ مسیحی اور جنہوں نے انکار کیا وہ یہودی، یہاں تقسیم ہو گئی۔ اہل حق کا ٹائٹل منتقل ہو گیا مسیحیوں کو ۔ پانچ صدیوں تک بیت المقدس مسیحیوں کے پاس رہا، انہی کا قبلہ رہا۔

حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع کے نوّے سال بعد رومی بادشاہ نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے ۔ یہودیوں کو نکال دیا اور اپنا قبلہ حاصل کر لیا۔ تو پانچ صدیوں تک عیسائیوں کے پاس رہا۔


تیسری بات : مسلمانوں کا دور

 

پھر اہل حق کا ٹائٹل منتقل ہوا مسلمانوں کو ، بخاری شریف میں طویل روایت ہر قل والی، اس میں ابو سفیان سے ہر قل کا مکالمہ ہوا، سوال و جواب کیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں، یہ مکالمہ بیت المقدس میں ہوا تھا، ہرقل وہاں اس دوران دورے پر آیا ہوا تھا، وہاں اسے نبی کریم صلی الله علیہ و سلم کا نامہ مبارک ملا ۔ ابوسفیان قافلے کے ساتھ وہاں تھے، ان سے مکالمہ کے دوران ہرقل نے ایک جملہ کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کہ : انه لنبي وسيملک موضع قدمی هاتين

یعنی بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں جائے گا


پہلی فتح 


پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں  فتح ہوا، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے فتح کیا لیکن عیسائیوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہی چارج دینے کا کہا اور اور حضرت عمر تشریف لائے۔ 


دوسری فتح 


پھر صلیبی جنگوں کے ذریعہ عیسائیوں نے حاصل کیا، پھر صلاح الدین ایوبی نے اسے واپس عیسائیوں سے حاصل کر لیا۔

تو ہم نے بیت المقدس کا قبضہ عیسائیوں سے لیا ہے، یہودیوں سے نہیں لیا، یہودیوں کا تو کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔


یہودی کدھر سے آگئے؟


دوسرا دائرہ، یہودی کدھر سے آگئے؟ خیبر کی فتح اور مدینہ سے جلا وطن کرنا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جزیرۃ العرب سے نکالنے کے بعد سے ہماری کوئی لڑائی یہودیوں سے رہی ہی نہیں۔ عیسائی ان کو مارتے تھے، ہم پناہ دیتے تھے ، یہی ہماری تاریخ رہی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ کہاں سے آگئے؟


صہیونی تحریک


۱۵۰ سال قبل دنیا بھر کے یہودی اکھٹے ہوئے اور انہوں نے ۱۸۰۰ سال بعد دوباره بیت المقدس کو حاصل کرنے کی پلاننگ کی۔ ( آغاز ۱۸۹۷ء میں تھیوڈور ہر تزل نے کیا۔ اظفر ) اس وقت خلافت عثمانیہ تھی، البتہ ویزے پر یہودیوں کو آنے کی اجازت دے رکھی تھی اور دیوار گریہ پر آکر عبادت کرنے کی اجازت تھی۔

یہودیوں کا عالمی وفد سلطان عبد الحمید ثانی سے ملا، سلطان عبد الحمید ثانی نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں کا لیڈر تھیوڈور ہر تزل خود میرے پاس آیا۔


صہیون


" صہیون" دراصل پہاڑی کا نام ہے، جہاں حضرت داؤد علیہ السلام عبادت کیا کرتے تھے، وہ مقام بڑا مقدس ہے ظاہر ہے، تو اس پہاڑی کے نام پر یہ تحریک کا نام رکھا۔

وفد نے یہ درخواست کی کہ ہمیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے ! سلطان نے کہا، فلسطین کے علاوہ ہماری پوری خلافت میں جس جگہ چاہو اجازت دے سکتا ہوں۔ 

دوسرے سال پھر آئے ، پیشکش کی کہ سارے قرضے ادا کر دیں گے آپ کے ! سلطان نے انکار کر دیا۔

تیسرے سال پھر آئے Blank چیک لے کر، سلطان نے پھاڑ دیا اور کہا آئندہ مت آنا۔


جنگ عظیم اول


پھر ۱۸-۱۹۱۴ میں جنگ عظیم اول ہوئی، تو جرمنی کو شکست ہو گئی ، خلافت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا، پھر شکست ہو گئی، تو عرب علاقے بندر بانٹ کر کے قبضے میں لیے گئے۔


اعلان بالفور 


تو یہ برطانیہ کے وزیر خارجہ کے پاس گئے کہ جنگ کے اخراجات ادا کریں گے، یہ بالفور تھا، اس نے اعلان کیا کہ ہم فلسطین پر یہودیوں کے قومی وطن کے حق کو تسلیم کرتے ہیں اور ہم اس کی حمایت کریں گے۔ (۱۹۱۷ء میں ہوا)


یہودی آباد کاری 


پھر بندربانٹ میں برطانیہ نے فلسطین کو اپنے حصے میں رکھ لیا، اور وہاں یہودیوں کے لیے زمین خرید نے کی ممانعت والے قانون کو تبدیل کر دیا اور دنیا بھر کے یہودی آباد ہونے شروع ہو گئے۔


زمینوں کی خریداری


مفتی اعظم فلسطین نے فتویٰ دیا۔ زمین یہودیوں کو فروخت کرنا جائز نہیں نتیجہ کے اعتبار سے۔

اس فتوے کی تائید ہمارے اکابر مفتی کفایت اللہ ، مولانا اشرف علی تھانوی، نے بھی اپنے فتاوی میں کی۔ لیکن عملی طور پر زمینیں بکتی گئیں، برطانیہ نے اپنی سر پرستی میں دنیا بھر کے یہودیوں کو آباد کیا۔


پھر جب ان کی تعداد اچھی خاص ہو گئی تو برطانیہ نے ان کا کیس اقوام متحدہ میں پیش کیا۔ اقوام متحدہ نے ۱۹۴۷ء میں فلسطین کے صوبے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے یہودی ریاست کی بنیاد رکھ دی یعنی منظوری دے دی ( بعد ازاں ۱۹۴۸ء میں) فلسطینیوں نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا


دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ نے دو حصے تو بنا دیے اور اسرائیل کی ریاست تو بنائی گئی لیکن فلسطین کی ریاست آج تک نہیں بنوائی گئی بس میونسپل کی حکومت ہے۔


بیت المقدس کی حیثیت


اقوام متحدہ کی اس تقسیم میں بھی بیت المقدس اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی متنازعہ علاقہ قرار دے کر اردن کے قبضے میں دیا تھا۔

اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں بیت المقدس پر قبضہ کیا اردن مصر وغیرہ سے جنگ کے بعد ۔

آج تک اقوام متحدہ کے کاغذات کے اعتبار سے بیت المقدس اسرائیل کا نہیں ہے۔


غزہ


پھر آہستہ آہستہ دھکیلتے دھکیلتے ساحل کے پاس ایک چھوٹی سی پٹی تک لے آئے غزہ کو ، باقی سب اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔

یہودیوں نے اسرائیل نامی ریاست کا اعلان کر دیا۔


اس قضیے کے فریق 


چار فریق ہیں۔ سب کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے 


نمبر ۱۔ اسرائیل 


اسکا ایجنڈا گریٹر اسرائیل ہے۔ سلیمان علیہ السلام کے زمانے کی عالمی حکومت دوبارہ حاصل کرنا۔ مدینہ اس میں ہے، مکہ اس میں نہیں ہے۔ عراق، سعودیہ، اردن سب اس میں ہیں۔


نمبر ۲۔ ایران


ایران کا ایجنڈا دولت فاطمی ہے۔ مصر کی دولت فاطمیہ نے دو سو سال اپنا وجود رکھا ہے جس میں تقریباً ۷۰ سال حرمین شریفین بھی ان کے قبضے میں رہا ہے۔ اللہ میری بات غلط کرے لیکن آدھا کام کر چکا ہے، عراق، شام، یمن، لبنان سب جگہ ایران موجود ہے، بس مصر اور سعودیہ میں داخل ہونا ہے تو دولت فاطمیہ قائم !

سنجیدگی سے اپنے وژن پر کام کر رہا ہے۔ اپنے وژن کے لیے اسے کسی کا ساتھ دینے میں فائدہ ہوگا تو دے گا۔


نمبر ٣ عرب ممالک


عرب ممالک، میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں نہ کوئی وژن ہے نہ ایجنڈا مصر کے مُرسی نے ایک رخ قائم کرنے کی کوشش کی تھی، اس کی ٹانگیں کس نے کاٹیں ؟؟ اس نے Lead کرنے کی کوشش کی تھی۔


اور اس وقت عربوں کا اس ساری کشمکش میں ایک ہی ایجنڈا ہے کہ دو چار خاندانوں کی جو حکومتیں ہیں بس وہ کس طرح بچ سکیں۔


نمبر ٤ ترکی


ترکی کا وژن خلافت عثمانیہ ہے۔ وژن واضح ہے لیکن اس کے حالات ابھی کم از کم اس پوزیشن میں نہیں کہ آینده کم از کم دس سال کوئی ٹسل لے سکے۔


ترکی اس وقت تک کچھ نہ کر سکے گا جب تک ہم مولانا محمد علی جوہر والی خلافت کی تحریک دوبارہ نہ چلا لیں ہمیں کچھ کرنا پڑے گا ورنہ ترکی اکیلے کچھ نہیں کر سکتا۔


سات ٧ اکتوبر اور اس کے بعد


سات ۷ اکتوبر کو دنیا کے بقول فلسطینیوں نے خود کش حملہ کیا ہے لیکن بات یہ ہے کہ 

اکتوبر تک تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات چل رہی تھی، سعودیہ نے تسلیم کرنا تھا پھر ہم نے کرنا تھا پھر باقی کیا رہ جاتا، مسئلہ فلسطین ختم ہو جاتا۔


 نمبر ا۔ فلسطینیوں نے ۱۲ ہزار شہداء کی قربانی دے کر اس کو بریک لگادی اور میرے نزدیک وہ کامیاب ہیں۔


نمبر ۲۔ اسرائیل کو کوئی چھیڑ نہیں سکتا، دنیا کا تاثر تھا،دنیا کا یہ تاثر توڑ دیا اور آج تک میدان میں کھڑے ہیں۔ نہتے ہو کر بھی لڑا جا سکتا ہے دنیا کو دکھا دیا۔


نمبر ۳۔ دنیا کا تاثر یہ بن گیا تھا کہ یہ جھگڑا بس وہاں کے دو گروہوں کا ہے، اس کو زائل کر کے اس مسئلے کو عالمی مسئلہ بنادیا یہ جمود توڑا ہے اور اس کو بین الاقوامی مسئلہ ثابت کر دیا، تو یہ تین مقاصد حاصل کر لیے ہیں انہوں نے۔ اور اسٹریٹیجی کی جنگ حماس والے جیت چکے۔ 


نمبر ۴۔ چوتھا یہ کہ مسلم دنیا ہمارے ساتھ آئے گی ، اب مسلم دنیا تو ہے ان کے ساتھ لیکن حکمران کوئی نہیں، او آئی سی کا اجلاس ہوا، قرارداد سامنے لائے یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اب اگلا کام ہم نے کرنا ہے، پبلک نے۔


ہماری ذمہ داری کیا ہے؟


فضا کو گرم رکھنا یہ ہماری ذمہ داری ہے، جتنا ہم فضا کو گرم رکھیں گے یہ حکمران کھڑے رہیں گے ورنہ یہ لیٹ جائیں گے۔

محفوظ طریقے سے ان کی جتنی مدد کر سکتے ہیں کریں، ان کی حمایت بھی ان کی بہت بڑی مدد ہے۔

حمیت کے اظہار کے لیے اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ کم از کم اتنا تو کریں کہ ہماری نفرت کا اظہار ہو، چاہے ان کا نقصان ہو یہ نہ بھی ہو


سوالات


بیان عشاء سے قبل مکمل ہوا، پھر شرکاء نے چند سوالات کیے۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ مصر اپنی جانب سے رفح بارڈر نہیں کھول رہا، تو مصر کا یہ کردار کیا ہے؟


اس پر حضرت نے فرمایا : مصر بالکل صحیح کر رہا ہے! کیونکہ اسرائیل تو چاہتا ہی یہ ہے کہ غزہ خالی کر دیا جائے، تو اگر علاقہ خالی ہو گیا تو یہاں کس کا قبضہ ہو جائے گا؟ ظاہر ہے اسرائیل کا، تو پھر تو قصہ ختم ! اس لیے مصر کا یہ فیصلہ بالکل درست ہے، اور علاقہ کے لیے قربانی تو دینی پڑے گی!


ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا جہاد فرض ہو چکا ہے؟ مولانا نے حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی طرف ریفر کر دیا۔


بعد ازاں حضرت کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا۔

و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالين

------------------------------------------------------------

 کتاب : ماہنامہ سلوک و احسان جنوری 

صفحہ : از ٢٦ تا ٣١

ناقل :مولانا انس میمن غفر لہ پالنپوری (اقبال گڑھی) 

------------------------------------------------------------


To Top