۲۶ جنوری یعنی یوم جمہوریہ حقیقت کے آئینے میں


از : مفتی عبدالرزاق بنگلوری



۲۶ جنوری کا نام سنتے ہی ہر ہندوستانی کے ذہن میں سب سے پہلے دو باتیں آتی ہیں: پہلی ہندوستان کا آئین اور دوسری یوم جمہوریہ پر راجدھانی دہلی میں منعقد ہونے والی عظیم الشان پریڈ- ۱۹۵۰ء میں ۲۶ جنوری کی تاریخ کو ہی ہندوستان کا آئین نافذ ہوا، یعنی ۷۴ سال پہلے پہلی بار ہر ہندوستانی کے لیے اپنی مرضی کی قانون سازی کا دن تھا۔ آئین ملک کے ہر شہری کے لیے مستند ترین دستاویز بن گیا اور اس میں موجود ہر چیز ملک کا وقار بن گئی۔ 


یوم جمہوریہ بھارت بھارت کی ایک قومی تعطیل ہے جسے ملک بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ حکومت ہند ایکٹ جو ۱۹۳۵ء سے نافذ تھا منسوخ کر کے آئین ہند کا نفاذ عمل میں آیا اور آئین ہند کی عمل آوری ہوئی۔ [1] دستور ساز اسمبلی نے آئین ہند کو ۲۶ نومبر ۱۹۴۹ء کو اخذ کیا اور ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء کو تنفیذ کی اجازت دے دی۔ آئین ہند کی تنقید سے بھارت میں جمہوری طرز حکومت کا آغاز ہوا۔


 آزاد ہندوستان کا اپنا دستور ( قانون ) بنانے کے لیے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں ۲۹ اگست ۱۹۴۷ء کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کو ملک کا موجودہ دستور مرتب کرنے میں ۲ سال، اا/ ماہ اور ۱۸/ دن لگے تھے، دستور ساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہر اک شق پر کھلی بحث ہوئی، پھر ۲۶ نومبر ۱۹۴۹ء کو اسے قبول کر لیا گیا ، اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۰ء کو ایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پر دستخط کر دیا۔


آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی ہندوستان ایک خود مختار ملک بن گیا، ہر ایک چیز اپنی تھی ، ملک کے جغرافیے سے لے کر سیاست تک سب کچھ اپنے شہریوں کے لیے کیا گیا۔ اس خود مختاری کی حفاظت کے لیے کیا گیا، اس خود مختاری کی حفاظت عظیم ہندوستانی فوج کرتی ہے، جس کے بہادر جوان مادر وطن کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہر سال ۲۶ جنوری کو راجدھانی میں ایک عظیم الشان پریڈ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں فوج کے دستے، اپنی تاریخ اور فخر کو یاد دلاتے ہوئے اپنے سپریم کمانڈر، ہندوستان کے صدر کو سلام پیش کرتے ہیں۔ 


راشٹریہ پتی بھون سے شروع ہو کر یہ پریڈ لال قلعہ پر ختم ہوتی ہے۔ اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ شاید پہلے یوم  جمہوریہ سے ہی اس کا اہتمام کیا جا رہا ہے؛ لیکن ایسا نہیں ہے، یوم جمہوریہ پر پریڈ کا پہلی بار ۱۹۵۵ء میں اہتمام کیا گیا تھا۔ ۲۶ جنوری ۲۰۲۳ ء کو یہ پریڈ کرتیہ پتھ پر ہو رہی ہے، لیکن پہلے اس کا نام راج پتھ ( کنگزوے ) ہوا کرتا تھا ۔ ۱۹۵۵ء سے اب تک اس مستقل پریڈ کی جگہ چار بار تبدیل کی جا چکی ہے۔ 


سال۱۹۵۵ء  سے پہلے یوم جمہوریہ کی پریڈ دہلی میں مختلف مقامات پر ہوتی تھی۔ اس کا اہتمام پہلے یوم جمہوریہ پر دہلی کے ایرون اسٹیڈیم میں کیا گیا تھا ، اس کے بعد صدر جمہوریہ نے کبھی رام لیلا میدان ، کبھی لال قلعہ اور کبھی کنگز وے کیمپ میں پریڈ کی سلامی لی ۔


 سال ۱۹۵۵ء میں پہلی بار ۲۶ جنوری کو راج پتھ پر پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا ، تب سے اس پریڈ کو یہاں کے لیے مستقل کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ سلامی کا پلیٹ فارم بھی مستقل بنایا گیا ، جہاں ملکی فوج اپنے سپریم کا نڈر کو سلامی پیش کرتی ہے۔


راج پتھ پر فوج کے دستوں کا مارچ جہاں ملک کی اپنی فوجی طاقت کے خوف کا احساس دلاتا ہے، وہیں اس پریڈ میں ملک اور دنیا کے سامنے ملک کی ثقافتی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ ملک بھر کی مختلف ریاستوں کے ٹیبلو بھی پریڈ میں جگہ پاتے ہیں، جس میں ثقافت کا سایہ نظر آتا ہے، مختلف ریاستوں کی جھانکیاں دلکش ہوتی ہیں۔


سال ۱۹۵۳ء میں پہلی بار ۲۶ جنوری کو ثقافتی لوک رقص کی جھانکی دیکھی گئی ، جس میں مختلف ریاستوں کے قبائل رقص شامل تھے۔ ثقافتی جھانکیاں ملک میں تنوع میں اتحاد کی مثال پیش کرتی ہیں، ساتھ ہی اس موقع پر ملک کے ہر رنگ کو اس میں شرکت کا موقع دیا جاتا ہے۔


جمہوریت ملک کا سب سے اہم ستون ہوتا ہے، اس کا مطلب اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ اس ملک میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل طور سے حق و اختیار حاصل ہے کہ وہ آزادی سے زندگی گزاریں، سب کو اختیار ہے کہ وہ دستور میں دیے گئے حقوق سے اپنا دامن بھریں، تاریخ کے زریں صفحات اور ہندوستان کی سرزمین ابھی تک گواہ ہے کہ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں بزرگانِ دین ، علمائے کرام اور محبانِ وطن نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا، تب کہیں جا کر ہندوستان اور اس کے بسنے والے آزاد ہوئے ، مگر آج بھی یہ سوال ہمارے کانوں سے ٹکراتا ہے کہ ملک آزاد ہوئے آج صدیاں گزر گئیں؛ لیکن کیا ہم صحیح معنوں میں آزاد ہیں کہ نہیں، ۲۶ جنوری یوم جمہوریہ صرف جوانوں کے کرتب ، فوجی طاقت کے مظاہروں اور توپوں کی سلامی یا فقط اسکولی بچوں کے ثقافتی پروگراموں کے منعقد کرنے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ ۲۶ جنوری یوم جمہور یہ دراصل ملک کے آئین اور جمہوریت سے تجدید وفا کا دن ہے، ہمارا ملک ہندوستان پوری دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ پوری آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر نہ صرف قائم و دائم ہیں؛ بلکہ کھلے عام وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں اور یہی ہمارے دیس کی خوبصورتی ہے، آزادی کے بعد ہندوستان کا آئین کچھ اس طرح بنایا گیا کہ ہر شخص کے ملی، قومی، سماجی اور مذہبی اقدار کا خیال رکھا گیا ، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے آئین پر فخر کرتے ہیں۔ 


 ملک میں شہریوں کے حقوق اور حکومت کے رہنما اصولوں پر بنی ایک آئین مرتب کیا گیا، اس کو ہم آئین ہند یا دستور ہند کے نام سے جانتے ہیں، یہ ہندوستان میں جمہوریت کی بنیاد ہے، یہ وہ آئین ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو متحد کرتی ہے۔ آئین ہماری زندگی ، اقدار، طرز عمل اور روایت اور اس کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے، اسی دن کو ہم یوم جمہوریہ کے نام سے جانتے ہیں، یوم جمہوریہ اپنے آئین کا درس دیتا ہے، تمام سرکاری، نیم سکاری اور تعلیمی ادارے؛ نیز نجی مکانوں پر ہم اپنے ملک کا جھنڈا لگاتے ہیں، یہ ہمیں ہندوستانی عظمت و رفعت کو یاد دلاتا ہے، تمام افواج اپنے کارناموں کا مظاہرہ کرتی ہیں، ہوائی جہاز کے قطاروں سے ترنگا بنانے کا منظر بڑا دلکش ہوتا ہے، ہم مانتے ہیں کہ ہاں یہ سب ہوتا ہے، مگر ایک سب سے اہم سوال: کہ کیا آج جو قانون ہمارے لیے بنایا گیا تھا، کیا اس قانون کی رو سے ہم آزاد ہیں؟ یا اس قانون کے ذریعے سے ہم فوائد حاصل کر رہے ہیں؟ ان سب کے باوجود آج اپنا وہی تہذیب و تمدن کا گہوارہ کہا جانے والا ہندوستان بہت ہی نازک حالات اور سنگین دور سے گزر رہا ہے اور اس ہندوستان میں دیگر قومیں ہندو، بدھ، جین ، سکھ، عیسائی سب چین وسکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں؛ مگر ہندوستانی مسلمانوں کی حالت بایں جا رسید کہ سب سے زیادہ ظلم وستم کا شکار یہی ہو رہے ہیں، تختہ مشق ستم یہی بن رہے ہیں، اور جب سے بھگوا پارٹی کی مئی ۲۰۱۳ء کے انتخا تاب میں جیتنے کی وجہ سے مودی وزیر اعظم منتخب ہوئے ، تب سے مودی حکومت سنگھیوں کے ساتھ مل کر سرکاری عہدیداروں اور پالیسیوں پر تنقید کرنے کی پاداش میں انسانی حقوق کے بہادر دفاع کاروں ، علمبرداروں اور خاص کر مسلمانوں کے اوپر لمبا چوڑا مقدمہ چلانے کا ایک طویل سلسلہ جاری کر رکھا ہے، کبھی لو جہاد کے بہانے، کبھی مدارس کے بہانے ، کبھی این آرسی“ کے بہانے، کبھی ۳۷۰ آرٹیکل ہٹانے کے بہانے اور کبھی زرعی قوانین نافذ کرنے کے بہانے حکمران جماعت اور اس کے ساتھ وابستہ ہندوانتہا پسند تنظیموں کے ذریعے مذہبی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں پر تشدد اور ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کیا جا رہا ہے، اور قانون عدالت، جمہوریت سب چند امیر لوگوں کی مٹھی میں ہیں۔ آج اس دستور کی کس طرح دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں، یہ کسی سے مخفی نہیں ہے، جمہوریت کا کس طرح مذاق بنا دیا گیا ہے؛ بلکہ پورے جمہوری نظام پر کس طرح فسطائیت نے شب خون مارا ہے، یہ ہر کوئی ذی علم واقف ہے، اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے ، آمین


ناقل : مولانا انس میمن غفرلہ پالنپوری (اقبال گڑھی)


------------------------------------------------------------------

All In One

بے شمار دینی کتب ، درسی کتب ،شروحات، ماہنامہ ، رسائل، نعتیں، ویڈیوز، اسلامی تصاویر، یومیہ آیت مع ترجمہ، حدیث مع ترجمہ، محقق با حوالہ مسائل، اوقات نماز وغیرہ سب کچھ بلکل مفت حاصل کرنے کے لئے ڈونلوڈ کیجیے 

Download IslamicTube App 

ویبسائٹ لنک      

islamictube.in

---------------------------------------------------------------------



To Top