یہ کیسی شادی ؟ یہ کیسے خون کے رشتے؟ بہن اور بیٹی والے حضرات لازمی پڑھیں-





اسما سے میری کچھ سال پہلے ہی شناسائی ہوئی تھی ۔ ایک دن باتوں ہی باتوں میں اس نے اپنی بہن کا ذکر کیا ۔ اور کہا کہ اس کے لیے دعا کیجے گا۔ تفصیل پوچھی تو ہچکچاہٹ کا شکار ہوئی ۔ پھر ایک دن خود ہی دل کا بوجھ ہلکا کر بیٹھی ۔۔۔


بتانے لگی کہ وہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ۔ بڑی بہن بہت ہی نفیس ، پڑھی لکھی اور پیاری لڑکی تھی ۔ والد صاحب کو جگر کا کینسر تھا ،


انہوں نے جلد بیاہ دی اور دو سال بعد خود بھی چل بسے ۔ اس کے ہسبنڈ ایک سرکاری محکمے میں گریڈ چودہ کے ملازم تھے ، زندگی اچھی گزر رہی تھی ۔ شادی کے سات سالوں میں اولاد نہ ہوئی لیکن وہ خوش تھی ۔ آٹھویں سال شوہر کو اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے ۔ اب چونکہ بچے نہیں تھے تو وہ سسرال میں رہنے کی بجائے اپنے میکے آگئی ۔



بھائی بھابی نے بسر و چشم قبول کیا ۔ ماہانہ اس کی کچھ پینشن بھی بن گئی تو گزر بسر ہونے لگی ۔


دو سال ہی گزرے تھے کہ خاندان کی طرف سے ان پر دوسری شادی کا دباو بڑھنے لگا ۔ یہاں بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون کو رشتے میں بھی کافی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ والدہ بیمار رہنے لگی تھیں اور وہ اپنی زندگی میں ایمن کو رخصت کرنا چاہتی تھیں ۔ ایک جگہ سے رشتہ آیا اور بتایا گیا کہ لڑکے کی عمر چونتیس سال ہے ، ملازمت نہیں کرتا لیکن اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتا ہے ، زمینوں پر نوکر چاکر بھی ہیں ۔ اور تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے ۔ ایک دو ملاقاتوں میں رشتہ طے پا گیا ۔ گھر بار اچھا تھا ، بھائی بھائی جب بھی گئے لڑکا سر نیہوڑے چپ سادھے بیٹھا رہا۔ والدین نے بتایا کہ شریف اور خاموش طبع ہے بلکہ دوسرے معنوں میں بہت سیدھا ہے ۔ دو ماہ بعد نکاح کی سادہ سی تقریب رکھی گئی ۔ اور ایمن رخصت ہو کر قریبی گاوں چلی گئی ۔


پہلی رات ہی اس پر انکشاف ہوا کہ لڑکا صرف سیدھا نہیں ہے بلکہ بالکل ہی اللہ لوک ہے ۔ اسے دوسرے لفظوں میں نیم پاگل یا مجذوب بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ اس پر قیامت گزر گئی ۔ ساری رات وہ عجیب و غریب حرکتیں کرتا رہا اور وہ دبک کر کونے میں پڑی رہی ۔ صبح اس نے ڈھکے چھپے لفظوں میں بتایا تو انہوں نے کہا کہ بچپن سے تھوڑا بہت ذہنی مسئلہ ہے تو بھی کبھی ادویات کی وجہ سے الٹی سیدھی حرکتیں شروع کر دیتا ہے ۔ ویسے ٹھیک ہے ، فکر نہ کرو۔


اگلے چند دنوں میں اسے پتا چلا کہ وہ بظاہر چونتیس سال کا ہے لیکن اس کا ذہن چار پانچ سالہ بچے جیسا ہے ۔ وہ خود زبر دستی کپڑے بدلنے کو کہتی ، کھانا کھلاتی ، کبھی تو دن ڈھلے گھر آجاتا تو کبھی رات گئے ۔ ۔ ۔ تین ماہ ایسے ہی گزر گئے لیکن اسے اپنے شوہر میں ذرا سی بہتری نظر نہ آئی ۔ اسی دوران اس کی امی کا انتقال ہو گیا ۔




کچھ دن بعد بھائی بھابی سے بات کی تو انہوں نے کہا گزارا کرو ، شکر کرو سر ڈھانپنے کو چھت میسر ہے ۔ وہ چپ چاپ سرال چلی آئی ۔ لیکن اس کا نہ دل قبول کر رہا تھا نہ دماغ ۔ ۔ ۔ ۔ کہاں وہ پڑھی لکھی اور نفیس طبع لڑکی اور کہاں وہ عقل و خرد سے بیگانہ ایک مجذوب سا شخص اس نے بہت کوشش کی ۔ ۔ ۔ جتنا وہ کر سکتی تھی کہ وہ اس شخص کو ان تمام نقائص سمیت قبول کرلے لیکن وہ دل کا کیا کرتی ۔ ۔ ۔ ان جذبات اور احساسات کا کیا کرتی جو فطری طور پر اس کے اندر رکھ دیے گئے تھے ۔ 2019 میں عید کی صبح تھی جب اس کا مردہ جسم اس کے بیڈ پر پایا گیا ۔ اس نے گندم میں رکھنے والی گولیاں نگل لی لی تھیں ۔ ایک غلط فیصلے نے اس کو زندگی سے متنفر کر دیا تھا ۔ کچھ ماہ بعد سنا کہ اس لڑکے کی مائیں بہنیں پھر سے اس کے لیے رشتے کی تلاش میں ہیں ، شاید پھر کسی جائیداد دیکھ کر یا کسی نے بیٹی کا بوجھ اتارنے کی غرض سے بیٹی اس دوزخ میں اتار دی تھی ۔ ۔ ۔


اس نے گندم میں رکھنے والی گولیاں نگل لی تھیں ۔ ایک غلط فیصلے نے اس کو زندگی سے متنفر کر دیا تھا ۔ کچھ ماہ بعد سنا کہ اس لڑکے کی مائیں بہنیں پھر سے اس کے لیے رشتے کی تلاش میں ہیں ، شاید پھر کسی جائیداد دیکھ کر یا کسی نے بیٹی کا بوجھ اتارنے کی غرض سے بیٹی اس دوزخ میں اتار دی تھی ۔ ۔ ۔

کچھ دن پہلے خطیب احمد صاحب نے اسی مسئلے پر لکھا تو میری آنکھوں میں کئی واقعات گھوم گئے ۔ ان میں ایک دلخراش واقعہ یہ بھی تھا ۔ حیرت ہے کہ کوئی نیم پاگل یا سادہ لوح لڑکی کو بہو بنانے پر تیار نہیں ہوتا ۔ لیکن اپنے ذہنی معذور اور نیم پاگل بیٹوں کے لیے کیوں کسی لڑکی کی زندگی اجاڑ دی جاتی ہے۔


تب کہا جاتا ہے کہ یہ شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا ۔ کیا پیدائشی ذہنی امراض شادی کے بعد ٹھیک ہو سکتے ہیں ؟ الٹا ایک اور جیتے جاگتے باشعور انسان کو بھی پاگل اور نفسیاتی مریض بنا دیا جاتا ہے ۔


چلیں لڑکے والوں کو تو اپنا لالچ ہوتا ہے کہ ہم نے ایک نیم پاگل کو تیس سال تک سنبھالا اب بیاہ دیں گے تو بہو سنبھالے گی ، کیا والدین کو رشتہ کرنے سے پہلے تحقیق نہیں کرنی چاہیے ؟؟ یہ ظلم تو پھر لڑکی کے والدین  کرتے ہیں ۔ اور برابر کے شریک ہیں ۔


To Top