دین ودنیا کے تضاد کا خاتمہ


حضور ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے دین و دنیا کی وحدت کا تصور قائم کیا، پہلے زمانے میں دین اور دنیا دو متضاد چیزیں سمجھ لی گئی تھیں، جس کا لازمی مطلب یہ تھا کہ کوئی شخص دین و دنیا دونوں کا جامع نہیں ہو سکتا تھا، یہ دونوں الگ الگ کشتیاں تھیں اور کوئی شخص بیک وقت ان دونوں کشتیوں میں سوار نہیں ہو سکتا تھا، دین کو اختیار کرنے کا مطلب یہ تھا کہ دنیا سے یک دم کنارہ کش ہو جاۓ اور دنیوی تمام تعلقات کو بالائے طاق رکھدے، جس کا نام رہبانیت تھا، اور اگر کوئی شخص دنیا کے ساتھ لگارہنا چاہتا تو اس کو دین چھوڑ دینا پڑتا تھا، اس طرح پوری دنیا دو کیمپوں میں بٹی ہوئی تھی،ایک اہل دنیا کا کیمپ تھا، تو دوسرا اہل دین کا، پھر ان دونوں کیمپوں کی رقابت وجنگ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ دونوں کے درمیان نقطہ اتحاد کا تصور کرنا بھی مشکل ہو گیا، یاتو انسان دنیا کے معاملہ میں بالکل شتر بے مہار ہو گیا تھا یا پھر دین کے نام پر راہب اور سادھو بن گیا تھا۔

یہ ہمارے حضور رحمۃ للعالمین ﷺ کا معجزہ تھا کہ آپ نے دین و دنیا کی اس غیریت و رقابت کو ختم فرمایا، آپ نے بتایا کہ : دین اور دنیا اپنی ذات سے کوئی چیز نہیں ہے،اصل چیز انسان کا عزم وارادہ، نیت واحساس اور جذبہ و خیال ہے، انسان اچھی نیت سے کوئی کام کرے تو وہ اچھا ہے،اور بری نیت سے کرے تو خراب ہے ، حضور ﷺ نے واضح طور پر فرمایا کہ دنیا کا کوئی کام بھی اگر حسن نیت کے ساتھ اور خدا کی رضاجوئی کیلئے کیا جاۓ ، تو وہ عبادت اور مستحق ثواب ہے ،اور کوئی دینی کام بھی غلط ارادہ سے کیا جائے تو وہ خالص دنیا بن جاتا ہے ، اس پر کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا، کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں حسن نیت کے ساتھ لقمہ ڈالے تو یہ بھی عبادت ہے، اور کوئی غلط نیت کے ساتھ جہاد و قربانی اور ہجرت وعبادت بھی کرے تو بے کار ہے ،اس پر ثواب تو کیا خدائی گرفت کا اندیشہ ہے، اس طرح آپ نے دین ودنیادونوں کو نیت وارادہ کی زنجیر سے جوڑ دیا اور دونوں کی غیریت ختم فرماکر ایک لڑی میں پرو دیا، اب یہاں نہ کوئی دنیا دار ہے اور نہ کوئی تنہا دین دار ہے، ہر ایک مسلمان ہے ،اور جو مسلمان ہے وہ دین و دنیا دونوں کا جامع ہے، اور حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کے الفاظ میں:
"یہاں لباس دنیا میں درویش، قباۓ شاہی میں فقیر وزاہد ، سیف و تسبیح کے جامع ،رات کے عبادت گزار اور دن کے شہسوار نظر آئیں گے ، اور اس میں کسی قسم کا تضاد محسوس نہیں ہو گا“۔

____________________________________________________

کتاب : مقام محمود امتیازات سیرت طیبہ

صاحب کتاب : مولانا مفتی اختر امام عادل قاسمی 

صفحہ نمبر : ١٤١،١٤٢

ناقل مضمون : مولانا انس میمن پالنپوری (اقبال گڑھی) 


 

To Top